اخلاق کا لفظ ذہن
میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو
ہر آدمی اپنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اخلاق انسان کاایک
ایسا جز ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی تو سمجھ لیجئے
کہ وہ کامل انسان ہے، اخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں
کو غذا پہنچاتا ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور عبادت کی
زینت اخلاق کو قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان
عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں
ہوگی، اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ
روزہ رکھنے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، مسلم شریف کی
روایت ہے کہ ”نیکی حسن اخلاق کا نام ہے اور برائی وہ ہے
جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔“
(رواہ مسلم و ابوداؤد)
ترمذی
شریف میں ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو
اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھاہو“ چنانچہ عظمت اخلاق آخری نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز ہے، سارے انبیاء اخلاق کی
تعلیم دینے کے لیے دنیا میں آ ئے، مگر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اس ہدایت کے آخری رسول ہیں، یا یوں
سمجھئے کہ قرآنی نظریہ اخلاق ہے اور رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نمونہ اخلاق ہیں، جب نظر یہ عمل میں ڈھلتا ہے تو کمی
بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر اخلاق کا نظریہ جتنا معقول
اورمستحکم ہے اتنا ہی مستحکم اخلاق کا نمونہ بھی ہے، اسی لیے
دنیا کے بیشتر مفکرین اور معلّمین کی نظر میں
اخلاق کا درس خوشنما نظر آتاہے،مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر وعمل
کا تضاد اور گفتار و کردار کااختلاف سامنے آتا ہے؛ لیکن رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ
ہے، کردار اتناہی پاکیزہ نظر آتا ہے، تعلیم جتنی روشن نظر
آتی ہے، سیرت اتنی صیقل دکھائی دیتی
ہے، کہیں پر کوئی جھول یا کسی قسم کا کھوٹ نہیں،
اوراس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی اس اعزاز کے مستحق
تھے؛ کیوں کہ وہ کون سا خلق حسن ہے جو آپ کی ذات گرامی میں
نہیں تھا، حیاء جس کو تمام اخلاق میں سب سے افضل اور عظیم
ترین خلق قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
عملی زندگی میں اس کے دخل کا یہ حال تھا کہ سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ایک باکرہ اور بے نکاح لڑکی اپنے پردے میں
جس قدر حیا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم حیا دار تھے۔
غصہ
کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت
کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کردینا تو
آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے اندر یہ اعلیٰ صفت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی،
اگر سیرت کا مطالعہ غور سے کیا جائے تواس کی مثال قدم قدم پر ملیں
گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب
رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے (اونٹ پر سوار ہوکر) مدینہ منورہ کی
جانب روانہ ہورہی تھیں، تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک
شخص نے انہیں اتنی تیزی سی نیزہ مارا کہ وہ
اونٹ سے گرپڑیں، حمل ساقط ہوگیا، اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اور
اللہ کو پیاری ہوگئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوئے اور آپ کو اس
بات سے بہت صدمہ ہوا، جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی
تو آب دیدہ ہوجاتے؛ لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی
کی درخواست کی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں
معاف کردیا۔
اسی
طرح وحشی بن حرب جن کی ذات سے اسلامی تاریخ کے تلخ ترین
حادثہ کی یاد وابستہ ہے، کہ جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے محبوب و مشفق چچا کو قتل کیاتھا؛ لیکن جب انھوں نے اسلام لاکر
خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا
اسلام تسلیم فرمالیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی کیفیت دریافت
فرمائی، جب انھوں نے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم پر گریہ طاری ہوگیااور فرمایا وحشی!
تمہارا قصور معاف ہے؛ لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں
دیکھ کر پیارے شہید چچا کی یاد تازہ ہوجاتی
ہے۔
وفا
- انسانی اورایمانی صفت ہے جس کے اندر وفا نہ ہو وہ یقینا
انسانیت اور ایمان کے کمال سے محروم ہے قرآن میں بدعہدی
کو یہود جیسی مردود قوم کی صفت بتایاگیا ہے
اورایفائے عہد کو مومنوں، متقیوں اور اللہ کے نبیوں کی
صفت قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ
میں ایک اخلاق یہ بھی ہے کہ آپ ہمیشہ وفائی
کرتے تھے بے وفائی اور عہد شکنی نہیں کرتے تھے، حضرت ابورافع رضی
اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام سے بھیجا (یہ
اس وقت کی بات ہے جب میں اسلام سے محروم تھا) جب میں نے آپ کی
زیارت کی تو فوراً میرے دل میں اسلام کی محبت بیٹھ
گئی، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خدا کی
قسم اب میں یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا، مگر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ”نہ تو میں وعدہ خلافی کرتا ہوں
اورنہ عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ ہی غلاموں کو روکتاہوں، فی
الوقت تم واپس چلے جاؤ البتہ اگر تمہارے دل میں یہی جذبہ، یہی
ارمان، یہی تمنا، یہی خواہش رہی تو پھر واپس چلے
آنا“ چنانچہ میں اس وقت تو چلا گیا؛ لیکن بعد میں خدمت
اقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔
چنانچہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی
دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی، اپنے ازلی
وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا،
نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی
تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے
بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں
بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل
ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ
اعلان کرتے ہیں ”الیوم یوم
الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج
شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج
ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں
کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہٴ جوالہ بن کر خرمن
کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری
کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔
لیکن
تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ
ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میںآ ئی اور زبان
رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ”لاتثریب
علیکم الیوم واذہبوا انتم الطلقاء“ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے
کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا، یہ تھاآپ کا
اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ،
جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔
چنانچہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ
اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری
تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ”انک لعلی
خلق عظیم“ ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ مجھے تو اس لیے
بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی
تکمیل کروں، اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
”کان خلقہ
القرآن“ ۔
لہٰذا
جو مکارم اخلاق آپ کو خالق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی
تکمیل کے لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا
تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے
اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا بلکہ ان کے ذریعہ روحانی
مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھایا جائے اوراٹھنے والوں کو چلایاجائے
اور چلنے والوں کو تیزی سے دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو
روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی غایة قصویٰ
تک اور سعادت دنیوی ہی نہیں؛ بلکہ سعادت دارین کی
سدرة المنتہیٰ تک پہنچایاجائے۔
بیشک
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے
بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں
اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی
تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی
زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے
لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر
چڑھنا آسان ہوجائے گا۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 91 ، ربیع
الاول1428 ہجری مطابق اپریل2007ء